نئی دہلی، صحت و کنبہ بہبود کے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے سنڈے سمواد کی چھٹویں قسط کے دوران سوشل میڈیا سے وابستہ افراد کے متعدد سوالات کے جوابات دیے۔ نوراتری کے لئے تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے اپنے فالووَرس سے وزیر اعظم مودی کی جن آندولن کی اپیل پر عمل کرنے، کووِڈ سے متعلق مناسب رویے کو اپنانے اور اس کے سفیر بننے کی اپیل کی۔ انہوں نے تیوہاروں کو اپنے اعزاء و اقارب کے ساتھ اپنے گھروں میں روایتی انداز میں منانے کی درخواست کی۔ مرکزی وزیر صحت نے کہا کہ، ’’تیوہار کے اس موسم میں، جشن منانے پر خیرات دینے کو فوقیت دی جانی چاہئے۔ دنیا بھر میں کووِڈ۔19 کے اثرات کا شکار، ہماری حفاظت کرنے والے کورونا سورماؤں کے آگے تیوہاروں کو لے کر میری خوشیاں بھی پھیکی رہیں گی۔‘‘
ڈاکٹر ہرش وردھن نے کیرالا میں کووِڈ۔19 معاملات میں رونما ہوئے حالیہ اضافے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ 30 جنوری سے 3 مئی کے دوران کیرالا میں محض 499 مریض سامنے آئے تھے اور 2 اموات واقع ہوئی تھیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیرالا اونم تیوہار کے دوران برتی گئی لاپرواہی کی قیمت چکا رہاہے، جس کے دوران تجارت اور سیاحت کے لئے بین ریاستی اور ریاست کے اندر سفر کے لئے رعایت بڑھانے کے ساتھ ساتھ ریاستوں میں ان لاک کے دوران رعایتوں میں اضافہ کیا جا رہا تھا۔ اسی وجہ سے مختلف اضلاع میں کووِڈ۔19 کے معاملات میں اضافہ ہونا شروع ہوا؛ ’’اونم تیوہار کی وجہ سے پوری ریاست میں اس بیماری کا گراف تبدیل ہوگیا، یومیہ بنیاد پر سامنے آنے والے نئے معاملات تقریباً دوگنے ہوگئے‘‘۔ وزیر موصوف نے کہا کہ وہ تمام ریاستیں جنہوں نے تیوہاروں کے لئے منصوبہ وضع کرنے میں لاپرواہی برتی ہے، انہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
چین کے اس دعوے پر کہ نووَل کورونا وائرس گذشتہ برس ایک ہی وقت میں کئی ممالک میں پھوٹ پڑا تھا، ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ، ’’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے جو اس بات کی تصدیق کر سکے کہ کورونا وائرس بیماری کے پھوٹ پڑنے کے دنیا بھر میں کئی مرکزی مقامات تھے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ووہان (چین) دنیا بھر میں ابھی بھی ایسے مقام کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جہاں کووِڈ۔19 کا پہلا معاملہ سامنے آیا تھا‘‘
چین میں تیارشدہ آکسی میٹر کے بازاروں میں بڑی تعداد میں آنے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ صارفین کو بازار سے یا آن لائن خوردہ فروشوں سے پلس آکسی میٹر خریدتے وقت ایف ڈی اے/ سی ای منظور شدہ مصنوعات اور آئی ایس او / آئی ای سی تفصیلات پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آکسیجن سیچوریشن لیول میں کمی ہونا کووِڈ۔19 کی کوئی علامت نہیں ہے اور یہ کسی دیگر بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر ہرش وردھن نے یقین دہانی کرائی کہ بھارت میں کورونا وائرس میں کسی قسم کے تغیر کا پتہ نہیں لگا ہے۔
گذشتہ قسط میں پوچھے گئے سوال کے تحت، ان سے ریاستوں کو کووِڈ۔19 گرانٹس کے دوسرے مرحلے کے بارے میں پوچھا گیا۔ وزیر موصوف نے بتایا کہ صحت و کنبہ بہبود کی وزارت 33 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لئے کووِڈ پیکج کی دوسری قسط جاری کر چکی ہے۔ دوسرے پیکج کے تحت مجموعی طور پر 1352 کروڑ روپئے جاری کیے گئے۔ یہ رقم اگست، ستمبر اور اکتوبر 2020 کے دوران قسطوں میں جاری کی گئی۔
ڈاکٹر ہرش وردھن نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ کورونا وبائی مرض کے دوران ان کی وزارت آن لائن تعلیم کے میدان میں بھی پیچھے نہیں ہے اور ایم بی بی ایس طلبا کے لئے ملک کے میڈیکل کالجوں اور اداروں میں آن لائن کلاسیں چل رہی ہیں جنہیں نیشنل میڈیکل کمیشن نے منظوری دی ہے۔ اس کے علاوہ، صحت و کنبہ بہبود کی وزارت نے بھی کووِڈ۔19 کے مدنظر پوسٹ گریجویٹ میڈیکل طلبا کی پیشہ ورانہ تربیت کے لئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر جاری کیا ہے۔
انہوں نے ایک سوال کرنے والے کو یہ کہہ کر اطمینان دلایا کہ اس بات کا کوئی بھی سائنٹفک ثبوت نہیں ہے کہ کورونا وائرس اخبارات کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اخبارات کو کورونا وائرس وبائی مرض کے دوران پڑھنا مکمل طور پر محفوظ ہے۔
ملک میں کورونا سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار میں تضاد سے متعلق ایک سوال پر ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ ان کی وزارت نے اس بیماری سے ہونے والی اموات کے صحیح سرٹیفکیشن کے مسئلے کو ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے سامنے اٹھایا ہے اور کورونا سے ہونے والی اموات کی رپورٹنگ کے بارے میں صحیح طور طریقے اپنانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وزیر موصوف نے یقین دلایا کہ ملک میں میڈیکل آکسیجن کی کوئی قلت نہیں ہے اور اس وقت بھارت کی موجودہ آکسیجن پیداواری صلاحیت یومیہ تقریباً 6400 میٹرک ٹن ہے۔ اس وبائی مرض میں اگر آکسیجن کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے تو حکومت پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے میں پوری طرح سے تیار ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے تشکیل دیا گیا بااختیار گروپ ملک میں میڈیکل آکسیجن کی نگرانی کر رہا ہے اور وزارت صحت بھی ریاستوں کے نوڈل افسران، پرنسپل سکریٹریوں اور مشن ڈائرکٹروں کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ میدانی سطح پر مسلسل میڈیکل آکسیجن کی دستیابی اور فراہمی پر نظر رکھ رہا ہے۔ اب تک مختلف ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو 102400 میڈیکل آکسیجن سلینڈروں کی فراہمی کی جا چکی ہے اور نیشنل فارماسیوٹیکل پرائس اتھارٹی نے رقیق میڈیکل آکسیجن کی قیمت کا تعین کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، کووِڈ۔19 انتظام کے لئے سوچ سمجھ کر آکسیجن کے استعمال کے بارے میں رہنما خطوط بھی جاری کیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ ملک میں اس وقت کووِڈ۔19 انٹرنسل ویکسین کلینکل ٹرائل نہیں چل رہا ہے اور ریگولیٹری منظوری حاصل کرنے کے بعد آنے والے مہینوں میں ملک میں سیرم انڈیا اور بھارت بایوٹیک ایسی ویکسینوں کا کلینکل ٹرائل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ملک میں تیسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائل میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا ہے اور ان کی تعداد 30000 سے 40000 ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی خاص شہر یا ہسپتال میں کسی وقت سینکڑوں شراکت داروں کا انتخاب کر لیا جائے تاہم تیسرے مرحلے میں مجموعی طور پر ویکسین شراکت داروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
کووِڈ۔19 سے نمٹنے کے لئے ادویہ کے منفی اثرات اور ایسے معاملات کی نگرانی کے لئے مخصوص مہم کے بارے میں ڈاکٹر ہرش وردھن نے واضح کیا کہ یہ مہم کسی موجودہ دوا کے منفی اثرات کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ کووِڈ۔19 کی تیاریوں سے متعلق پروگرام کی پالیسی کا ایک سرگرم جزو ہے۔
سائنس اور تکنالوجی کے مرکزی وزیر نے یہ بھی وضاحت کی کہ ممبئی اور چنئی کے لئے تیار کیے گئے مربوط سیلاب انتباہ نظام ساحل سمندر پر واقع شہروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہے اور اسے کولکاتا تک وسعت دی جائے گی۔ آسام اور بہار جیسی ریاستیں جہاں ندیوں میں ہر سال سیلاب آتا ہے وہاں آئی ایم ڈی کے ذریعہ بارش کی پیشن گوئی کی بنیاد پر سینٹرل واٹر کمیشن وارننگ جاری کرتا ہے۔
دہرادون میں سی ایس آئی آر ۔ آئی آئی پی اور گیل کے ذریعہ تیار کیے گئے ایک ڈیمانسٹریشن پلانٹ کے بارے میں اپ ڈیٹ ساجھا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ اپنی پوری اہلیت کے ساتھ کام کرنا شروع کرے گا تو یہ 1000 کلو گرام فضول پلاسٹک سے بی ایس ۔ VI کوالٹی کا حامل 800 لیٹر ڈیزل روزانہ پیدا کر سکتا ہے۔
وزیر موصوف نے کہا کہ گذشتہ چھ برسوں میں سائنس اور تکنالوجی کے شعبے نے اپنی مختلف اسکیموں کے ذریعہ خصوصاً خواتین سائنس دانوں پر توجہ مرکوز کرکے صنفی تناسب میں بہتری لانے میں تعاون دیا ہے۔ یہ اصلاح آج خاص طور سے سائنسی اداروں میں نچلی سطح پر واضح طور پر دکھائی دیتی ہے اور نہ صرف یہ کہ اسکولی سطح پر سائنسی تعلیم میں تعاون دینے والی خواتین کا فیصد کافی بڑھ گیا ہے، بلکہ سرکاری تجربہ گاہوں میں خواتین کی فیصد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
صورتحال میں مزید بہتری لانے کے لئے سائنس اور تکنالوجی کا شعبہ نئی اسکیموں کے ذریعہ مختلف سطحوں پر اس شعبے میں خواتین کی شراکت داری کو بڑھاوا دے رہا ہے۔
’سنڈے سمواد‘ کی چھٹویں قسط دیکھنے کے لئے، برائے مہربانی نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کریں:
ٹوئیٹر: https://twitter.com/drharshvardhan/status/1317730112872226817?s=20
فیس بک : https://www.facebook.com/watch/?v=1114364852316144
یو ٹیوب : https://www.youtube.com/watch?v=OYQw5Q8ISPk
ڈی ایچ وی ایپ : http://app.drharshvardhan.com/download