نئی دہلی، انکم ٹیکس قانون 1961 اور فائنانس(نمبر۔2)قانون 2019 میں بعض مخصوص تبدیلیاں کرنے کے لئے حکومت ٹیکس سے متعلق قوانین( ترمیمی) آرڈیننس 2019 لے کر آئی ہے۔اس کااعلان خزانہ اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن آج گوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔وزیر خزانہ نے ان ترامیم کی اہم خصوصیات کے بارے میں بتایا جو کہ درج ذیل ہیں:
- اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے انکم ٹیکس قانون میں ایک نئے ضابطہ کااضافہ کیا گیاہے،جو کہ مالی برس 20-2019 سے نافذ العمل ہے۔اس سے مطابق کسی بھی گھریلو کمپنی کو 22 فیصد کی شرح سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔اس کے ساتھ بات مشروط ہے کہ وہ کمپنی کوئی چھوٹ/ ترغیبات حاصل نہیں کرے گی۔ ان کمپنیوں کے لئے ٹیکس کی موثر شرح بشمول سرچارج اور سیس 25.17 فیصد ہوگی۔ علاوہ ازیں اس طرح کی کمپنیوں کو کم از کم متبادل ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
- مینوفیکچرنگ کے شعبے میں نئی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے اور اسی طرح سے حکومت ہند کے‘میک ان انڈیا’ اقدام کو فروغ دینے کے لئے انکم ٹیکس قانون میں ایک نئے ضابطہ کااضافہ کیاگیا ہے ، جو مالی برس 20-2019 سے نافذالعمل ہے۔ اس کے مطابق کسی بھی نئی گھریلو کمپنیوں کو جو کہ یکم اکتوبر 2019 کی تاریخ سے یا اس تاریخ کے بعد قائم کی گئی ہے اور مینو فیکچرنگ میں نئی سرمایہ کاری کرنے کی خواہاں ہے، اسے 15 فیصد کی شرح سے انکم ٹیکس ادا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔یہ فوائد ان کمپنیوں کے لئے دستیاب ہیں جو کسی بھی قسم کی چھوٹ/ ترغیبات حاصل نہیں کرتی ہیں اور اپنی پیداوار کی شروعات 31 مارچ 2023 کی تاریخ یا اس سے قبل کرتی ہیں۔ اس طرح کی کمپنیوں کے لئے ٹیکس کی بہت سی شرح بشمول سرچار ج اور سیس کے 17.01 فیصد ہوگی۔ اسی طرح سے ایسی کمپنیوں کو کم از کم متبادل ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
- ایسی کمپنیاں جو کہ رعایتی ٹیکس نظام کاانتخاب نہیں کرتی اور ٹیکس چھوٹ / ترغیبات حاصل کرتی ہیں۔ اسے ترمیم سے قبل کی شرح سے ٹیکس ادا کرنے ہوں گے۔تاہم ایسی کمپنیاں ٹیکس چھوٹ/ استثنائی مدت کے ختم ہوجانے کے بعد رعایتی ٹیکس نظام کاانتخاب کرسکتی ہیں۔ اس اختیار کو عمل میں لانے کے بعد ان کمپنیوں کو 22 فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنے ہوں گے اور ایک مرتبہ جب اس اختیار کو عمل میں لایا جائے گا،تو اس کے بعد اسے چھوڑا نہیں جاسکتاہے۔مزید برآں ایسی کمپنیاں جو کہ چھوٹ/ ترغیبات حاصل کرنا جاری رکھتی ہیں، انہیں مزید راحت فراہم کرنے کے لئے کم از کم متبادل ٹیکس کی شرح میں تخفیف کیا گیا ہےاور اسے موجودہ شرح 18.5 فیصد سے 15 فیصد کردیا گیا ہے۔
- سرمایہ بازار میں فنڈز کی آمد کو مزید مستحکم کرنے کے لئے اس بات کا التزام کیا گیا ہےکہ فائنائنس (نمبر۔2) قانون 2019 کے ذریعہ متعارف کردہ اضافہ شدہ سرچارج، کمپنیوں میں حصص کی فروخت نیز ایکویٹی فنڈ یونٹ کی فروخت اور تمسکات لین دین ٹیکس کے لئے ذمہ دار تجارتی ٹرسٹ کی ایک اکائی کو انفرادی سطح پر، ایچ یو ایف، اے او پی،بی او آئی اور اے جے پی کے ذریعہ ہونے والے سرمایہ منافع پر قابل اطلاق نہیں ہوگا۔
- اضافہ شدہ سرچارج غیرملکی پورٹ فولیو کے حامل سرمایہ کاروں( ایف پی آئی) کے ذریعہ ڈیری ویٹوز سمیت کسی بھی تمسکات کی فروخت سے ہونے والے سرمایہ منافع پر بھی قابل اطلاق نہیں ہوگا۔
- 5 جولائی2019 سے پہلے حصص کے بائی بیک کااعلان کرنے والی درج فہرست کمپنیوں کو راحت پہنچانے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انہیں حصص کے بائی بیک پر لگنے والا ٹیکس نہیں دیناہوگا۔
- سرکار نے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری( سی ایس آر )کے تحت ہونے والے2 فیصد کے اخراجات کو توسیع دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اب 2 فیصد سی ایس آر کی رقم مرکزی ، ریاستی حکومتوں نیز کسی ایجنسی یا مرکز و ریاستی سرکار کی عوامی سیکٹر کی کمپنیوں کے ذریعہ امداد یافتہ انکیوبیٹرس پر بھی خرچ کی جاسکے گی ۔اس کے ساتھ ہی ایس ڈی جی کو فروغ دینے کے مقصد سے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میڈیسن کے شعبے میں تحقیق کرنے والی سرکاری یونیورسٹیوں، آئی آئی ٹی، قومی لیباریٹری اور خودمختار اداروں( مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے آئی سی اے آر، آئی سی ایم آر، سی ایس آئی آر، ڈی اے ای، ڈی آر ڈی او،ڈی ایس ٹی کے زیر انتظام قائم کردہ) کے لئے بھی تعاون دے سکیں گے۔
کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں کٹوتی اور دیگر راحتوں کے اعلان سے سرکاری خزانے میں 145000 کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔