نئی دہلی، زراعت اور کاشت کاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت میں وزیر مملکت جناب پرشوتم روپالا نے آج راجیہ سبھا میں بتایا ہے کہ حکومت نے 2022 ء تک کاشت کاروں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے ۔ حکومت نے قومی بارانی علاقہ اتھارٹی ، محکمۂ زراعت ، امدادِ باہمی اور کاشت کاروں کی فلاح و بہبود کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر کی صدارت میں ایک بین وزارتی کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے ، جو کاشت کاروں کی آمدنی کو دوگنا بنانے سے متعلق تمام امور کا جائزہ لے رہی ہے اور اس کمیٹی نے ایک حکمتِ عملی کی سفارش کی ہے تاکہ سال 2022 ء تک صحیح معنوں میں کاشت کاروں کی آمدنی کو بڑھا کر دو گنا کیا جا سکے ۔
فی الحال 2022 ء تک کاشت کاروں کی آمدنی کو بڑھا کر دوگنا کرنے کی حکمتِ عملی کے 13 ڈرافٹ تیار کئے گئے ہیں اور یہ ڈرافٹ اِس کمیٹی نے تیار کرکے محکمے کی درج ذیل ویب سائٹ پر عوام الناس کے تبصرے کی غرض سے اَپ لوڈ کر دیئے ہیں ۔ (http://agricoop.nic.in/doubling-farmers)
اس کے ساتھ ہی ساتھ حکومت ، زرعی شعبے پر آمدنی کو بڑھانے کے لحاظ سے توجہ مرکوز کر رہی ہے ۔ کاشت کاروں کے لئے خالص مثبت فوائد کو حقیقی شکل دینے کے لئے درج ذیل اسکیموں کو فروغ دیا جا رہا ہے اور انہیں ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے توسط سے نافذ کیا جا رہا ہے ۔
ان اسکیموں میں مٹی کی صحت سے متعلق کارڈ ( ایچ ایس سی ) اسکیم ، نیم کی پرت چڑھی ہوئی یوریا کھاد ( ان سی یو ) ، پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا ( پی ایم کے ایس وائی ) ، پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا ( پی کے وی وائی ) ، قومی زرعی مارکٹ اسکیم ( ای – نام ) ، پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا ( ای ایم ایف بی وائی ) ، قومی خوراک سلامتی مشن ( این ایف ایس ایم ) ، باغبانی کی مربوط ترقیات سے متعلق مشن ( ایم آئی ڈی ایچ ) ، تلہن آئل پام سے متعلق قومی مشن ( این ایم او او پی ) ، ہمہ گیر زراعت کے لئے قومی مشن ( این ایم ایس اے ) ، زرعی توسیع اور ٹیکنالوجی کا قومی مشن ( این ایم اے ای ٹی ) اور راشٹریہ کرشی وکاس یوجنا ( آر کے وی وائی ) وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ، پودے لگانے کی اسکیمیں ( ہر میڑھ پر پیڑ ) ، شہد کی مکھیوں کی پرورش ، ڈیری اور مچھلی پالن کو بھی نافذ کیا گیا ہے ۔ یہ تمام اسکیمیں ، اس مقصد سے نافذ کی جا رہی ہیں کہ زراعت کی پیداواریت اور پیداوار دونوں میں اضافہ ہو ، جن کے نتیجے میں کاشت کاروں کی آمدنی بھی بڑھے ۔
کم از کم امدادی قیمتوں کا اعلان زرعی لاگت و قیمتوں کے کمیشن ( سی اے سی پی ) کی سفارش پر کیا جاتا ہے ، جو خریف اور ربیع دونوں فصلوں کے لئے ہوتا ہے ۔ یہ کمیشن زراعت کی لاگت کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرکے اس کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کی روشنی میں کم از کم امدادی قیمتوں کی سفارش کرتا ہے ۔
کاشت کاروں کی آمدنی کو بڑھاوا دینے کے لئے ایک اہم قدم کے طور پر حکومت نے 19-2018 ء کے لئے تمام تر خریف کی فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت ( ایم ایس پی ) میں اضافہ کر دیا ہے ۔ حکومت کا یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کی حامل نوعیت کا فیصلہ ہے اور اسی فیصلے کی نوعیت کے لحاظ سے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ 19-2018 ء کے بجٹ میں اعلان کیا گیا تھا کہ فصلوں کی کم ازکم امدادی قیمت پیداوار کی لاگت کا کم از کم 150 فی صد ہو گی ۔
نیشنل سیمپل سروے آفس ( این ایس ایس او ) نے گذشتہ ایک برس کے دوران ملک کے کاشت کاروں کی آمدنی سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے یا مویشی پالنے والوں کی آمدنی سے متعلق کوئی سروے نہیں کیا ہے ۔ تاہم این ایس ایس او نے ( جنوری ، 2013 ء سے دسمبر ، 2013 ء ) کے دوران زرعی کنبوں کے سلسلے میں ایک صورت حال پر مبنی جائزہ سروے ضرور کیا تھا ۔ یہ سروے ملک کے دیہی علاقوں میں جولائی ، 2012 ء سے جون ، 2013 ء کے دوران کیا گیا تھا ۔ اس سروے کے دوران جولائی ، 2012 ء سے جولائی ، 2013 ء کے دوران زرعی کنبوں کی آمدنی کو زیر غور لایا گیا تھا ۔ یہ آمدنی مختلف سرگرمیوں کے نتیجے میں ہوئی تھی ۔ اوسط ماہانہ آمدنی فی زرعی کنبہ ، جو مختلف ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے گروپوں کے لئے جولائی ، 2012 ء سے جون ، 2013 ء کے دوران کیا گیا تھا ، وہ سروے صورت حال پر مبنی جائزے اور تجزیہ کی بنیاد پر کیا گیا تھا ۔ این ایس ایس کے 70 ویں دور کا گو شوارہ ( جنوری ، 2013 ء سے دسمبر ، 2013 ء ) درج ذیل ہے :
راجیہ سبھا کا غیر ستارہ سوال ( 326 ) برائے جواب 20 جولائی ، 2018 ء
این ایس ایس کے 70 ویں دور ( جنوری ، 2013 ء سے دسمبر ، 2013 ء ) کے دوران صورت حال پر مبنی جائزہ سروے ، جو زرعی کنبوں کے لئے تھا، اُس کی تفصیلات مختلف ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے گروپوں کے سلسلے میں جولائی ، 2012 ء سے جون ، 2013 ء درج ذیل گو شواروں میں دیکھا جا سکتا ہے :
uary 2013 – December 2013)
ریاست / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے گروپ |
اجرتوں سے آمدنی (₹) |
کاشت سے ہونے والی خالص آمدنی (₹) |
مویشی پالن سے ہونے والی خالص آمدنی (₹) |
غیر زرعی وسائل سے ہونے والی خالص آمدنی (₹) |
مجموعی آمدنی (₹) |
|
(1) |
(2) |
(3) |
(4) |
(5) |
(6) |
|
آندھرا پردیش |
2482 |
2022 |
1075 |
400 |
5979 |
|
اروناچل پردیش |
2076 |
6647 |
1310 |
836 |
10869 |
|
آسام |
1430 |
4211 |
799 |
255 |
6695 |
|
بہار |
1323 |
1715 |
279 |
240 |
3558 |
|
چھتیس گڑھ |
1848 |
3347 |
-19 |
1 |
5177 |
|
گجرات |
2683 |
2933 |
1930 |
380 |
7926 |
|
ہریانہ |
3491 |
7867 |
2645 |
431 |
14434 |
|
ہماچل پردیش |
4030 |
2876 |
1047 |
824 |
8777 |
|
جموں و کشمیر |
7336 |
3063 |
801 |
1483 |
12683 |
|
جھار کھنڈ |
1839 |
1451 |
1193 |
238 |
4721 |
|
کرناٹک |
2677 |
4930 |
600 |
625 |
8832 |
|
کیرلا |
5254 |
3531 |
575 |
2529 |
11888 |
|
مدھیہ پردیش |
1332 |
4016 |
732 |
129 |
6210 |
|
مہاراشٹر |
2156 |
3856 |
539 |
834 |
7386 |
|
منی پور |
3815 |
2924 |
1563 |
540 |
8842 |
|
میگھالیہ |
3776 |
6472 |
657 |
887 |
11792 |
|
میزورم |
3655 |
4561 |
864 |
19 |
9099 |
|
ناگالینڈ |
5393 |
3212 |
1384 |
59 |
10048 |
|
اڈیشہ |
1716 |
1407 |
1314 |
539 |
4976 |
|
پنجاب |
4779 |
10862 |
1658 |
760 |
18059 |
|
راجستھان |
2534 |
3138 |
967 |
710 |
7350 |
|
سکم |
3113 |
1696 |
980 |
1009 |
6798 |
|
تمل ناڈو |
2902 |
1917 |
1100 |
1061 |
6980 |
|
تیلنگانہ |
1450 |
4227 |
374 |
260 |
6311 |
|
تری پورہ |
2185 |
2772 |
311 |
162 |
5429 |
|
اترا کھنڈ |
1069 |
2531 |
848 |
253 |
4701 |
|
اتر پردیش |
1150 |
2855 |
543 |
376 |
4923 |
|
مغربی بنگال |
2126 |
979 |
225 |
650 |
3980 |
|
مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے گروپ |
5179 |
1864 |
213 |
1312 |
8568 |
|
کُل ہند |
2071 |
3081 |
763 |
512 |
6426 |