نئی دہلی، ماحولیات اور جنگلات کے علاوہ آب وہوا میں تبدیلی کی وزارت نے آج نئی دہلی میں آب وہوا سے متعلق نقصان اور تباہی کاجائزہ لینے، اسے کم سے کم کرنے اور اس سے نمٹنے کے سلسلے میں ابھرتے ہوئے پہلوؤں پر بحث کرنے کی خاطر ایک روزہ ورکشاپ کااہتمام کیا۔
ورکشاپ کاافتتاح وزیراعظم کے ایڈیشنل پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر پی کے مشرا نے کیا۔جنہوں نے کہا کہ ہندوستان موسم اور آب وہوا سے متعلق نقصان اور تباہی، کیرالہ کے سیلاب کے علاوہ اوکھی جیسے واقعہ کے تجربے سے دوچار ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس منظرنامہ کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے لئے ایک اچھی امید ہے اور اس لئے اس طرح کا ورکشاپ اہم ہے۔انہوں نے ایسے پانچ اہم چیلنجوں کا نشاندہی کی جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ نقصان کا کل اندازہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس کے مقام کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کا جنس اور سماجی گروپوں پر اثر پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ بائیو ڈائیورسٹی نقصان اور ایکو سسٹم خدمات جیسے اقدام پر چلنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ چھوٹے جزیرے والے ترقی پذیر ملکوں کے لئے آب وہوا سے متعلق نقصان اور تباہی نہ صرف ایک معاملہ ہے بلکہ ہندوستان جیسے بڑے ملکوں میں یہ ایک اہم اشو ہے۔ہندوستان جیسے ملک کی جہاں بہت سارے جزائر اور ساحلی شہر ہیں، ایک لمبی سرحدی پٹی ہے اور ہمالیائی ریاستیں ، برفیلے طوفان کے خطرےسے دوچار رہتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان آب وہوا سے متعلق انصاف کو یقینی بنانے کے تئیں عہد بستہ ہے اور انہوں نے ترقی یافتہ ملکوں کی ضرورت کا ذکر کیا۔تاکہ وہ مالی اور صلاحیت سازی میں تعاون سمیت سب سے حساس اور ترقی پذیرملکوں کو تعاون فراہم کرنے کے تئیں زیادہ عہد بستگی دکھا سکیں۔
نیتی آیوگ کے سی ای او جناب امیتابھ کانت نے ورکشاپ کے اہتمام کی منفرد پہل کے لئے وزارت کی ستائش کی اور کہا کہ یو این ایف سی سی سی کے تحت آب وہوا سے متعلق نقصان اور تباہی کا موضوع بین الاقوامی مذاکرات کاایک اہم ستون بن گیا ہے اور اس نے وارسا میں منعقد ہوئی سی او پی 19 کے بعد سے اہمیت حاصل کرلی ہے۔انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ہندوستان، جو 23یورپین ملکوں سے بڑا ہے اور اس کی شرح ترقی اور آبادی زیادہ ہے،ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے زیادہ چیلنجوں کاسامنا کررہا ہے۔جناب کانت نے کہا کہ کم کاربن والے پائیدار راستے ، غربت کے خاتمے اور آب وہوا میں تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
ماحولیات و جنگلات اور آب وہوا کے سکریٹری جناب سی کے مشرا نے اس بات کو اجاگر کیا کہ گرین ہاؤسیز گیسز( جی ایچ جی) مشنز پر بہت سی بار بات چیت ہوئی ہے لیکن اس کے لئے اہم فیصلے اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ ایک عالمی منصوبہ کے ساتھ آگے آئیں تاکہ آب وہوا سے متعلق تباہی اور نقصان کے مسئلے سے نمٹا جاسکے۔انہوں نے یو این ایف سی سی سی۔ سی او پی23 میں شروع ہوئے جوکھم کے ٹرانسفر پر فجی کلیئرنگ ہاؤس کا ذکر کیاجو ایسا پہلا موقع تھا جب جوکھم کے تبادلے اور جوکھم کو کم کرنے پر بین الاقوامی سطح پر تبادلہ خیال ہوا۔یہ بات سامنے لائی گئی کہ یہ چھوٹے جزیرے والے ملکوں کے لئے نہ صرف ایک مسئلہ ہے بلکہ ہندوستان جیسے ملکوں کے لئے بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جو آب وہوا سے متعلق نقصان اور تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عالمی تجربہ معلومات اور سیکھنے کے لئے اچھا ہے لیکن ایک ملک کو اپنی پالیسیاں لانے کی ضرورت ہے۔
یو این ایف سی سی سی کے نمائندے جناب چارڈ تودینگ گانگ بو نے گرم لہروں، ٹروپیکل سمندری طوفان، گلیشیئر کا پگھلنا اور زمین کا بنجر ہونا سمیت آب وہوا سے متعلق نقصان اور تباہی کے مسئلے کے عالمی تنازل کے بارے میں گفتگو کی۔انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ نقصان اور تباہی کے لئے جوابی کارروائی کئے جانے کی ضرورت ہے اس کے لئے کثیر قومی انتظامات اور اضافی تعاون کی اور کارروائی کی ضرورت ہے۔
اس ورکشاپ میں آب وہوا سے متعلق نقصان اور تباہی سے نمٹنے کے لئے کارروائی کو زیادہ مستحکم کرنے سمیت مخصوص موضوعات پر دو تکنیکی اجلاس ہوئے۔مختلف ریاستی سرکاروں ، اداروں نیز اپیلائڈ سسٹم اینالائسس آئی آئی ٹی دہلی کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ، مدارس اسکول آف اکنامکس، نیشنل آف انسٹی ٹیوٹ آف ڈزاسٹر مینجمنٹ، ایکشن ایکٹ انٹر نیشنل، گورنمنٹ آف تاملناڈو، اترا کھنڈ سرکار، کیرالہ سرکار، جی آئی زیڈ اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈ منسٹریشن کے ممتاز مقررنین نے شرکت کی۔