نئی دہلی،25 مارچ 2017؛ نائب صدر جناب ایم حامد انصاری نے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں کو علم سے وابستہ، آزاد ماحول فراہم کرنے، علم کے اہم خزانوں اور معتدل اقدار کے قابل تجدید ذرائع کے طور پر برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ سماجی نقل و حرکت اور لوگوں کو برابری کے مواقع فراہم کرسکیں۔ وہ آج چنڈی گڈھ میں پنجاب یونیورسٹی کے 66 ویں کنوکیشن سے خطاب کر رہے تھے۔ ہریانہ کے گورنر پروفیسر کپتان سنگھ سولنکی، پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اے کے گروور اور دیگر معزز شخصیات اس موقع پر موجود تھیں۔
نائب صدر نے کہا کہ کسی یونیورسٹی کو محض ایک پوليٹیكنك سے زیادہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ انتہائی پیشہ ورانہ سیاق و سباق میں بھی یونیورسٹی کا مقصد سب سے پہلے موضوع کی گہری سمجھ پیدا کرنا ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے حالیہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹی کو کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے، اسے لے کر کافی پیچیدگی ہے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ ہماری یونیورسٹیوں کی آزادی کو ” مفاد عامہ ” کے تنگ تصور سے چیلنج کیا گیا ہے۔ جناب حامد انصاری نے کہا کہ اختلاف اور تحریک کا حق ہمارے آئین میں بنیادی حقوق کے طور پر فراہم کیا گیا ہے۔ ہمارا آئین کثیر جہتی فریم ورک ہے اور اس میں تنگ نظر فرقہ واریت، تنگ خیالی یا تنگ مذہبی جذبات کی وضاحت کرنے سے انکار کیا گیا ہے۔